تفصیلات
پراکرت زبان سے ماخوذ فعل 'ڈھکنا' کے فعل امر 'ڈھک' کے آگے 'وس' بطور لاحقہ کیفیت لگانے سے 'ڈھکوس' بنا اور پھر اس کے آگے 'لا' یا 'لہ' بطور لاحقہ تذکیر و لاحقہ اسمیت لگانے سے ڈھکوسلا بنا جو اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٨٣٢ء کو "دیوان رِند" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - مہمل بات، بے کار بات، خرافات، لغو کام۔
"اسے ("درد کا شہر" کا مصنف زاہد ڈار) اس سے غرض نہیں کہ فرد اور معاشرہ کی ذمہ داری کا مفہوم کیسے متعین ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کو ڈھکوسلا سمجھتا ہے۔"
( ١٩٧٠ء، برشِ قلم، ٦٩ )
٢ - فریب، دھوکا، جھانسا، ڈھونگ۔
"یہ سب چندہ جمع کرنے کے ڈھکوسلے ہیں۔"
( ١٩٣٦ء، راشد الخیری، تربیت نسواں، ٥٧ )
٣ - چوچلہ، ناز و نخرہ۔
"یہ سب ڈھکوسلے میّا کی زندگی تک ہیں۔"
( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٢٩ )
٤ - بہانہ، حیلہ۔
"گل نے کہا حضرت لاحول ولا نرا والد کا ڈھکوسلا تھا آپ کو میں پسند نہ کرتی کیا مجھے سودا تھا۔"
( ١٨٤٥ء، نغمۂ عندلیب، ١٥٩ )
٥ - ایک صنفِ سخن جسے امیر خسرو کی ایجاد بتایا جاتا ہے۔
"امیر خسرو Absurd ڈرامے کی پیدائش سے سات سو برس پہلے . آگاہی حاصل کر چکے تھے اس آگاہی ہی نے ان سے اغلیں اور ڈھکوسلے کہلوائے۔"
( ١٩٧٦ء، علامتوں کا زوال، ١٩٤ )