ڈھیلا پن

( ڈِھیلا پَن )
{ ڈھی + لا + پَن }

تفصیلات


سنسکرت سے ماخوذ اسم صفت 'ڈھیلا' کے ساتھ اسی زبان سے ماخوذ اسم 'پن' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٨٨٣ء کو "تاریخ نثر اردو" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر )
١ - سستی، کاہلی۔ (نوراللغات)
٢ - کمزوری، ضعف، مثانے کا ڈھیلا پن۔
"مصروفیتوں نے موسموں کی دلکشی کو، عقیدے کے ڈھیلے پن نے تہواروں کی خوشی کو سچی اور پُر خلوص محبت کی کمی نے جدائی کی مصیبتوں کو . ان لوگوں کی زندگی سے مفقود کر دیا ہے۔"١٩٨٦ء، اردو گیت، ٣٥
٣ - انحطاط، بدنظمی، بے احتیاطی، خرابی۔
"کابینہ کا تذبذب اور ڈھیلا پن سارے انتظامی ڈھانچے میں ایک خطرناک زہر پھیلا رہا تھا۔"      ( ١٩٨٢ء، آتشِ چنار، ٥٩٠ )
٤ - پُھس پُھسا پن، بھدا پن۔
"جملوں کا ڈھیلا پن روانی کے رستے میں روڑے اٹکاتا ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، بزم خوش نفساں، ٣٣ )
٥ - پلپلاہٹ، بہت زیادہ نرم ہونے کی حالت۔
"بسا اوقات اس کے ڈھیلے پن کی وجہ سے اس کا شیرہ درخت پر ہی بہہ جاتا ہے اور درخت پر صرف گٹھلی رہ جاتی ہے۔"      ( ١٩٠٧ء، فلاحت النخل، ٣٩ )