دور کی بات

( دُور کی بات )
{ دُور + کی + بات }

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم صفت 'دور' بطور مضاف الیہ سنسکرت سے ماخوذ حرف اضافت 'کا' کی تانیث 'کی' اور سنسکرت سے ماخوذ مصدر 'بتانا' سے حاصل مصدر 'بات' بطور مضاف استعمال کر کے مرکب اضافی بنایا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٥٤ء کو "ریاض مصنف" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - گہری بات، سمجھداری کی بات، باریک نکتہ۔
 ہیں بدگمانیاں دل رِشکی کی ٹھیک ٹھیک دیوانہ گو ہے بات تو کہتا ہے دور کی
٢ - جس بات کا امکان نہ ہو، مشکل مسئلہ۔
"پردیس کا رہنا دور کی بات، آپ باہر، بچے شہر میں، وہ عہد پورا ہوا نہ تعلیم کی قید۔"      ( ١٩١٧ء، سنجوگ، ٤ )