دور کا

( دُور کا )
{ دُور + کا }

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم صفت 'دور' کے ساتھ سنسکرت زبان سے حرف اضافت 'کا' لگا کر مرکب بنایا گیا ہے۔ اردو میں ١٨٠١ء کو "گلشن ہند" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - بلند پایہ، اعلٰی۔
 ہے گماں اس مصرع تر پر نہال طور کا ہوں میں شاعر سوجھتا ہے مجھ کو مضموں دور کا      ( ١٨٢٤ء، مصحفی، دیوان (انتخاب رام پور)، ١٠ )
٢ - گہرا، شدید، تیز، بہت زیادہ، قدرے، قلیل، کسی قدر۔
 میں تیرے شیوۂ تسلیم پہ سر دھنتا ہوں کہ یہ اک دور کی نسبت تجھے اسلام سے ہے      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ٤٢٥ )
٣ - جو نزدیک نہ ہو، فاصلے سے۔
 سودا کبھی نہ مانیو نینا کی گفتگو آوازۂ دہل ہے خوش آیند دور کا      ( ١٩٨٢ء، ط ظ، ٦١ )
٤ - غیر خونی رشتہ داری۔
"میر تخلص، نام نامی اس نگین خاتم سخن آفرینی کا میر محمد تقی ہے متوطن اکبر آباد کے سراج الدین علی خان آرزو تخلص، آپ کے کچھ رشتہ داروں میں دور کے تھے۔"      ( ١٨٠١ء، گلشن ہند، ١٥٢ )