دور دورہ

( دَور دَورْہ )
{ دَور (و لین) + دَو (و لین) + رَہ }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے اسم مشتق 'دور' کی تکرار ہے۔ دوسرے لفظ 'دور' کے ساتھ 'ہ' بطور لاحقۂ نسبت لگائی گئی ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٠٠ء کو "سمر داد" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ
١ - رواج، چلن، حکومت۔
"مغرب میں افادیت پرستی کا دور دورہ ہوا۔"      ( ١٩٨٤ء، شمع اور دریچہ، ١١ )
٢ - افراط، کثرت، زیادتی۔
"اب آنسوؤں کا دور دورہ تھا اور انہیں کا عمل دخل۔"      ( ١٩١٢ء، سی پارۂ دل، ٤٥:١ )
٣ - وقت، زمانہ، سال۔
"اب تو جبکہ ١٩٢ کا دور دورہ ہے بادشاہ کی اولاد دہلی میں بھیک مانگتی پھرتی ہے۔"      ( ١٩٢٢ء، دلی کی جان کنی، ٥٥ )