دور دور

( دُور دُور )
{ دُور + دُور }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم صفت 'دور' کی تکرار ہے۔ اس طرح یہ مرکب تکراری ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٨٠ء کو "قصۂ ابوشحمہ (عکسی)" میں مستعمل ملتا ہے۔

حرف فجائیہ
١ - پرے ہٹ، پاس نہ آ۔"
 نزدیک جب میں درد جدائی ہوا سراج چاروں طرف میں عیش کوں یاں دور دور ہے      ( ١٧٣٩ء، کلیات سراج، ٤٥٤ )
متعلق فعل
١ - وسیع علاقوں تک، بہت دور تک، دور دراز۔
"اکثر لوگ دور دور سے قصد کرکے اسی غرض سے سرسید کے پاس آتے تھے۔"      ( ١٩٣٨ء، حالات سرسید، ١١٦ )
٢ - بھول کر بھی، کسی طور بھی۔
"اس کو کبھی دور دور یہ خیال نہ آیا تھا کہ وہ بھی اپنی محبوبہ کے ساتھ شہر سے جا سکتا ہے۔"      ( ١٩٧٠ء، قافلہ شہیدوں کا (ترجمہ)، ١٣٦:١ )