سنسناہٹ

( سَنْسَناہَٹ )
{ سَن + سَنا + ہَٹ }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسن  سَنْسَانا  سَنْسَناہَٹ

سنسکرت سے ماخوذ اسم مصدر 'سنسانا' سے علامتِ مصدر 'نا' حذف کرکے 'ہٹ' بطور لاحقہ کیفیت ملانے سے 'سنسناہٹ' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اور سب سے پہلے ١٨٠٣ء کو "گل بکاؤلی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : سَنْسَناہَٹیں [سَن + سَنا + ہٹَیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : سَنْسَناہَٹوں [سَن + سَنا + ہٹَوں (و مجہول)]
١ - تھرتھری، ارتعاش، جوش (خوشی یا غصے کی حالت میں)
"محبت کا جواب اپنائیت سے ملنے پر . خون میں سنسناہٹ ہونے لگی۔"      ( ١٩٨٦ء، آئینہ، ٢٣ )
٢ - ضعف یا خوف یا سنسنی کی خاص کیفیت جو ہاتھ پانْو وغیرہ میں پیدا ہوتی ہے۔
"وہ اعصاب کی سنسناہٹ اور خاموشی بعض وقت ناقابلِ برداشت سی بن جاتی ہے۔"      ( ١٩٥٢ء، زیرِ لب، ٢٥٧ )
٣ - کسی چیز کے فضا میں زناٹے سے گزرنے کی آواز۔
 فنا کے آہنی وحشت اثر قدموں کی آہٹ ہے دھوئیں کی بدلیاں ہیں گولیوں کی سنسناہٹ ہے      ( ١٩٥٥ء، مجاز، آہنگ، ٨٢ )
٤ - مٹی کے کورے برتن میں پانی ڈالنے، یا گوشت وغیرہ پکنے یا پانی میں جوش آنے کی آواز۔
"سب چیزوں کو واٹر باتھ پر رکھ کر گرم کرو، جب سب سنسناہٹ ختم ہو جاوے تو خوشبوئیں ملا دو۔"      ( ١٩٣٤ء، صنعت و حرفت، ٤٠ )
٥ - خوف سے سناٹے میں آجانے کی کیفیت۔
"چراغ کے گُل ہوتے ہی زندگی کی تاریک رات میں سنسناہٹیں آگھسیں۔"      ( ١٩٣٣ء، میرے بہترین افسانے، ٣٢ )
  • تَھرتَھری
  • زَناٹا
  • An imitative sound
  • ringing
  • jingling;  fainting