دنیا داری

( دُنْیا داری )
{ دُن + یا + دا + ری }

تفصیلات


عربی زبان سے اسم مشتق 'دنیا' کے ساتھ فارسی مصدر 'داشتن' سے فعل امر 'دار' بطور لاحقۂ فاعل لگایا کہ آخر پر 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگائی گئی ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨١٠ء کو "کلیاتِ میر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - دنیوی تعلقات، ملن ساری، کنبہ، بال بچے، خانہ داری۔
"فرد فرد کے معاملات میں گہرے خلوص اور اس سے زیادہ سرگرم دنیا داری کے ساتھ دلچسپی لیا کرتے تھے۔"    ( ١٩٨٦ء، انصاف، ٢٠٨ )
٢ - مال و دولت پر جان دینا، حرص و ہوس، ظاہری اخلاق۔
"دنیاداری اور مادیت کے پھیل جانے کے بعد دینی رجحان اور خدا طلبی کا مرکز ان حضرات کی ذات اور ان کے مقامات تھے۔"    ( ١٩٦٦ء، انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر، ٣٤١ )