کڑکنا

( کَڑَکْنا )
{ کَڑَک + نا }
( پراکرت )

تفصیلات


اصلاً سنسکرت زبان کا مصدر ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور فعل اور گا ہے صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٧٨ء کو "کلیات غواصی" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - تڑخنا، تیز آواز سے چٹخنا، کسی کپڑے کی آواز کے ساتھ پھٹنا۔
 ہوئیں بوسیدہ کڑیاں عمر کی طول اسیری سے کڑکتا ہے ہر انگڑائی میں اک اک استخواں میرا      ( ١٩٢٦ء، فغان آرزو، ٦٧ )
٢ - زور سے بولنا، جوش سے یا غصّے سے بولنا۔
"ہر روز شب کے دو بجے یا تین بجے گھر آیا کرتے، نوکروں پر برستے، کڑکتے، گرجتے۔"      ( ١٩٢٦ء، سرگز شتِ حاجرہ، ٢١ )
٣ - مہیب اور ڈراؤنی آواز نکالنا، گرجنا (بجلی اور بادل کا)۔
"بڑے زور کی آندھی آئی، بادل کڑکے بجلی چمکی۔"      ( ١٩١٣ء، سی پارۂ دل، ٦٧:١ )
٤ - کمان سے تیر چلنے کی آواز۔
 قبیلہ وار کمانیں کڑکنے والی ہیں مرے لہو کی گواہی مجھے نڈر کر دے      ( ١٩٨٣ء، مہر دو نیم، ٥٨ )
٥ - تیز رفتاری سے نکلنا، زناٹے کے ساتھ جانا۔
"اس گفتگو میں تھے کہ ناگاہ خروس ہدہد کی طرف سے بجلی کی طرح کڑک کر پہنچا۔"      ( ١٨٠٣ء، اخلاقِ ہندی، (ترجمہ)، ١٦١ )
٦ - کسی ساز کا زور سے بجنا، نوبت یا نقارے پر ضرب پڑنا۔
 کڑکنا وہ نوبت کا باجوں کے ساتھ گرجنا وہ دھونسوں کا دھوں دھوں کے ساتھ      ( ١٧٨٤ء، سحر البیان، ١٢٧ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - تڑخ جانے والا، پھٹ جانے والا۔
"ناخن کی ساخت میں تبدیلی واقع ہو کر درمیانی حصہ دبیز، ناہموار . غیر شفاف اور کڑکنا ہو جاتا ہے۔"      ( ١٨٨٢ء، کلیاتِ علم طب، ١٠٣٢:٢ )