استرہ

( اُسْتَرَہ )
{ اُس + تَرَہ }
( ہندی )

تفصیلات


ہندی زبان سے اسم جامد ہے، من و عن اردو میں داخل ہوا۔ اردو میں ١٤٣٥ء کو "کدم راو پدم راو" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم آلہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : اُسْتَرے [اُس + تَرے]
جمع   : اُسْتَرے [اُس + تَرے]
جمع استثنائی   : اُسْتَروں [اُس + تَروں (و مجہول)]
١ - ایک تیز دھار کا اوزار جس سے بال مونڈتے ہیں۔
 استرہ منہ پہ جو پھرنے نہیں دیتا ہے بجا محو دیندار سے کیونکر خط قرآں ہوتا      ( ١٨١٦ء، دیوان ناسخ، ١٩:١ )
٢ - چھری، چھرا، خنجر۔ (کشف اللغات؛ منتخب اللغات)
"بچوں کے سرہانے استرے رکھتے تھے کہ ان سے جنات بھاگ جاتے ہیں۔"    ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبی، ٤٩٥:٣ )
٣ - پاچھنا یا پچھنا، چوڑے منہ کا نہرنا جس سے پچھنے لگاتے ہیں۔
"اگر کوئی ان میں کاکاٹ لیتا ہے تو استرہ سے پچھنے دے کر خون نکالا کرتے ہیں۔"    ( ١٨٧٣ء، تریاق مسموم، ١٢ )
  • a razor