کریلا

( کَریلا )
{ کَرے + لا }
( سنسکرت )

تفصیلات


کارَویلک  کَریلا

سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم اور گا ہے صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٦٥ء کو "علی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر )
١ - [ مجازا ]  بہت زیادہ کڑوا۔
 کٹھن ہے صبر غم عشق کس سے کھایا جائے کہ دل کا رنج تو میٹھا نہیں کریلا ہے      ( ١٨٥٨ء، کلیات تراب، ٢٥٤ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : کَریلے [کَرے + لے]
جمع   : کَریلے [کَرے + لے]
جمع غیر ندائی   : کَریلوں [کَرے + لوں (واؤ مجہول)]
١ - ایک قسم کی کڑوی ترکاری جو بیل میں لگتی اور صورت میں کھردری ہوتی ہے، پکانے کے بعد مزیدار ہو جاتی ہے اور طرح طرح سے پکائی جاتی ہے۔
"بادشاہ پسند کریلے خوب پکاتی ہیں۔"      ( ١٩٥٦ء، رادھا اور رنگ محل، ١٨ )
٢ - وہ آم جو کریلے کی شکل کا ہوتا ہے۔ (نوراللغات)
٣ - [ پہلوانی ] ایک قسم کا مگدر۔
"اب جوڑی یا کریلا پھیرا، کبھی مانگ کے ہاتھ، کبھی رومالی کے۔"    ( ١٩٥٤ء، اپنی موج میں، ٦٦ )
٤ - مگدر گھمانے کی کسرت۔
"شہر کے رہنے والے اپنے ملک کی کسرتوں کو لازمی سمجھ کر سیکھتے تھے وہ کسرتیں یہ تھیں، بنوٹ، پھکڑی . شیر پیکر، علاوہ ان کسرتوں کے لیزم . کریلے . نالیاں۔"    ( ١٩٢٣ء، اہل محلہ اور نااہل پڑوس، ٢ )