استدراک

( اِسْتِدْراک )
{ اِس + تِد (کسرہ ت مجہول) + راک }
( عربی )

تفصیلات


درک  اِدْراک  اِسْتِدْراک

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب استفعال سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں ١٨٥١ء کو "ترجمہ عجائب القصص" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - حصول معلومات، ایک چیز سے دوسری چیز دریافت کرنا یا پانا، ادراک کرنا۔
"عالم تیرا فارمولہ وضع نہیں کر سکتا، حکیم تیری ماہیت میں استدراک نہیں کر سکتا۔"      ( ١٩١٤ء، راج دلاری، ١١٨ )
٢ - تدارک، غلطی کی اصلاح
"یہ حدیث صحیح نہیں، خلط کیا ہے اس میں قاسم بن عبداللہ عمری نے اور سیوطی نے اس کا استدراک کیا۔"
٣ - [ بدیع ]  کسی بات کی نفی مثبت یا اثبات صریح کے بعد کوئی ایسی شرط درمیان لانا جس سے وہ نفی یا اثبات مشروط ہو جائے؛ شاعر اپنی مدح کے بعد حرف استثنا لائے جس کو سن کر لوگ سمجھیں کہ بعد اس کے مذمت کرے گا اور اس کے بعد صفت مدح کی بیان کرنے۔ (بحرالفصاحت۔ 1058)
  • reaching
  • overtaking
  • obtaining;  comprehending
  • understanding;  (in Gram.) emendation;  antithesis