کپی

( کُپّی )
{ کُپ + پی }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم 'کپا' کی تصغیر ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨١٠ء کو "کلیات میر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : کُپِّیاں [کُپ + پِیاں]
جمع غیر ندائی   : کُپِّیوں [کُپ + پِیوں (و مجہول)]
١ - چھوٹا کپا، تیل رکھنے کا چھوٹا سا چرمی یا ٹین کا ظرف نیز مشین میں تیل ڈالنے کا دھات کا بنا ہوا ظرف جس میں تیل نکلنے کے لیے ایک باریک نلکی لگی ہوتی ہے اور الٹا کر کے پیندے کو دبانے سے تیل قطرہ قطرہ ٹپکتا ہے، وہ ظرف جس میں مشعلچی تیل بھر کر تھوڑا تھوڑا ٹپکاتے رہتے ہیں۔
"شاید مولانا کا مطلب ہے کہ کاغذ سمٹ کر گندھی کی کپی کی ڈاٹ بن گیا۔"      ( ١٩١٢ء، معرکۂ چکبست و شرر، ٣٤٣ )
٢ - تانبے یا پیتل کا وہ ظرف جس میں سپاہی بارود رکھتے تھے۔
 نہ ایسی جیسی ہوں کپی میں بھر کہ جس کو سن کے دل میلا ہو آکر      ( ١٨٧٤ء، قصۂ شاہ جمجمہ، ٤ )
٣ - چرخی یا بیلن گراری جس سے وزنی سامان بلندی پر کھینچا جاتا ہے کئی آدمیوں کا کام۔
"اگر گارڈر چڑھانے کے واسطے کوئی ترکیب کا سامان میسر آجائے جیسے کہ کپی یا چھوٹی کرام تو اسی قدر آدمی کم کرنا چاہیے۔"      ( ١٩١٣ء، انجینئرنگ بُک، ٣٧ )