استدراج

( اِسْتِدْراج )
{ اِس + تِد (کسرہ ت مجہول) + راج }
( عربی )

تفصیلات


درج  درج  اِسْتِدْراج

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب استفعال سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٨٨ء کو "ہدایات ہندی (ق)" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - (لفظاً) درجہ بدرجہ ہونے کی کیفیت یا عمل، (مراداً) تدریجی ترقی، ارتقا
 طے کیے ہیں میں نے استدراج کے سب مرحلے چھوڑ کر جسم اب میں جان ارتقا ہو جاؤں گا      ( ١٩١٧ء، بہارستان، ظفر علی خاں، ٥٥٤ )
٢ - شیطانی طاقت سے مافوق العادت کام، شعبدہ بازی، جادوگری۔
"مکر و استدراج یعنی شعبدہ بازی میں مہارت رکھتا تھا۔"      ( ١٩٥١ء، تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت، ١٩٠ )
  • with drawing or advancing gradually;  seeking to remove by degrees