لب بوسی

( لَب بوسی )
{ لَب + بو (و مجہول) + سی }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'لب' کے ساتھ فارسی مصدر 'بوسیدن' سے صیغۂ امر 'بوس' بطور لاحقۃ فاعلی کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب 'لب بوسی' اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے ١٦٧٢ء کو "دیوان شاہی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - منھ چومنا، لب سے لب ملانا، ہونٹوں کو بوسہ دینا۔
 گرچہ لب بوسی نہ پاؤں پائے بوسی بس ہے مج تج محبت کوں صنم پست و فرازی ہے مباح      ( ١٦٧٢ء، شاہی، دیوان، ٢٥ )