لب ریز

( لَب ریز )
{ لَب + ریز (ی مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'لب' کے ساتھ فارسی مصدر 'ریختن' سے مشتق صیغۂ امر 'ریز' بطور لاحقہ فاعلی لگانے سے مرکب 'لب ریز' اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٩١٣ء کو "تمدن ہند" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - بھرا ہوا، پُر، لبالب، کناروں سے اوپر تک بھرا ہوا۔
 دل معنی رنگیں سے لب ریز ہے سودا کا اس غنچے میں پھولے ہے گلزار بہت تحفہ      ( ١٩٧٥ء، تاریخ ادب اردو، ٢، ٦٧٦:٢ )