سنگ باری

( سَنْگ باری )
{ سَنْگ (ن غنہ) + با + ری }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے مرکبِ نسبتی ہے۔ فارسی میں اسم 'سنگ' کے ساتھ فارسی مصدر 'باریدن' سے فعل امر 'بار' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقہ کیفیت ملانے سے اسم کیفیت 'باری' لگا کر مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور ١٧٣٩ء کو "کلیاتِ سراج" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - پتھراؤ۔
 سزائے نذرِ آتش ہو کہ حُکم سنگ باری ہو خدارا حکم فرمائیں کہ کارعِدَل جاری ہو      ( ١٩٨٤ء، سمندر، ٧٤ )
٢ - [ مجازا ]  مُشکلات، مصیبت۔
"گذشتہ چالیس برسوں میں ہم نے اس سنگ باری کے بہت تماشے دیکھے۔"      ( ١٩٨٥ء، خواب در خواب، ١٥ )