فارسی زبان سے ماخوذ اسم صفت 'سنگین' کے ساتھ فارسی قاعدے کے تحت 'ی' بطور لاحقہ نسبت ملنے سے 'سنگینی' بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور ١٦٣٩ء کو "طوطی نامہ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
"مولانا طباطباعی نے ضرورت سے کچھ زیادہ ہی باریک بینی سے کام لیا ہے یعنی صدا کی لطافت کو کوہ کی سنگینی سے ٹکرایا ہے اور اس کی تڑپ کو اس کی پر نمکینی کے مقابل لائے ہیں۔"
( ١٩٥٥ء، نکتۂ راز، ٣٤١ )
٢ - تشدد؛ (کنایۃً) شدید حملہ، یلغار۔
سپہ تھا جانو اس کا مور و ملخ زمیں ہوئی سنگینی تھے اس ٹھار شخ
( ١٦٤٩ء، خاورنامہ، ٢٩٩ )
٣ - گرانئی خواب، نیند کا خُمار۔
"تمہاری نیند کی سنگینی کے آگے پتھروں کے دل چھوٹ گئے۔"
( ١٩٤٩ء، آثار ابوالکلام، ١٦٣ )
٤ - وزن، بوجھ، بھاری پن۔
"پانی میں دو قسم کی سنگینی ہوا کرتی ہے۔ ایک وقتی سنگینی اور دوسری دائمی۔"
( ١٩١١ء، مقدماتِ الطبعیات، ٧٣ )
٥ - مسئلے کی شدت۔
"اسمگلنگ کے مسئلے کی سنگینی کے باوجود حکومت ہندوؤں کے دباؤ کے سامنے جھک گئی۔"
( ١٩٨٧ء، پاکستان کیوں ٹوٹا، ٣٥ )
٦ - بے حسی، سختی۔
"مشرکین خدا کا کلام تیرہ برس تک مستقل سنتے رہے لیکن ان کے دل کی سنگینی میں کوئی فرق نہ آیا۔"
( ١٩١٥ء، سیرۃ النبیۖ، ٣١٩:٤ )