دہرانا

( دُہْرانا )
{ دُہ (ضمہ د مجہول) + را + نا }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت زبان سے لفظ 'دوہراو' سے ماخوذ اسم صفت 'دہرا' کے ساتھ 'نا' بطور علامت مصدر لگائی گئی ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٨٩ء کو "رسالہ حسن" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - بل کھانا، خمیدہ ہو جانا، مڑ جانا۔
"اوس کی بائیں ٹانگ اوسی کے جسم کے نیچے دہرا گئی ہے اور گھٹنے کی طرف جھک گئی ہے۔"      ( ١٨٨٩ء، رسالہ حسن، مئی، ٦٩ )
٢ - سبینا؛ صحنک کے کھانے پر دوسری دفعہ شکر اور گھی ڈالنا۔ (ماخوذ: جامع اللغات)
فعل متعدی
١ - دو تہہ کرنا، دہرا لپیٹنا۔
"آپ نے زمین سے ایک رسی اٹھا لی اور اسے دہرا کے اور ایک کوڑے کی صورت کے آگے بڑھے۔"    ( ١٩١٧ء، مسیح اور مسیحیت، ٣٥ )
٢ - کسی واقعہ یا بات کو بار بار کہنا۔
"غزل کی تعریف یہ قول اکثر دہرایا جاتا ہے کہ غزل سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا فن ہے۔"    ( ١٩٨٤ء، سمندر، ٨ )
٣ - کسی کام کو بار بار کرنا، اعادہ کرنا۔
 اس شہر کے رہنے والوں نے اس شہر کی رسمیں دہرائیں    ( ١٩٦٢ء، پتھر کی لکیر، ٢٩ )
٤ - ورد کرنا، کسی عبارت کو بار بار پڑھنا۔
"وہ (طوطا) بوقت ضرورت انہیں جملوں کو دہراتا رہتا تھا میاں مٹھو! . اللہ مالک، میاں مٹھو! . رب راکھا۔"      ( ١٩٨٥ء، ایمرجنسی، ٥٤ )