دہر

( دَہْر )
{ دَہْر }

تفصیلات


دہر  دَہْر

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مجرد کے باب سے مصدر ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : دَہُور [دَہُور]
١ - دنیا، کائنات۔
 آپ سی صورت کہیں دہر نے دیکھی نہیں    ( ١٩٨٤ء، زادِ سفر، ٣١ )
٢ - زمانہ، عصر۔
 ہوائے دہر کی زد میں بھی آکے بجھ نہ سکی۔ بلا کا حوصلہ اک شمع رہگزار میں تھا    ( ١٩٨١ء، ناتمام، ٣٨ )
٣ - زمین، میدان۔
 مہک اُٹھا چمن دہر کا پتا پتا راز چھپنے نہیں دیتی تیری خوشبو تیرا      ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، میخانۂ الہام، ٥ )
٤ - بہت لمبا وقت، مدت، ابتدائے افرنیش۔
"وقت کی دو نوعیتوں میں قدیم سے فرق کیا جاتا ہے (بعض اہل فکر اسے بھی نہیں مانتے) ایک زماں جو شمار میں آسکتا ہے اور ایک وہ "مدت یا دہر" جس سے لفظ دہریہ ماخوذ ہے۔"      ( ١٩٥٩ء، برنی (سید حسن)، مقالات، ٢٤ )
٥ - قسمت، نصیبا؛ اتفاق؛ بدقسمتی؛ خطرہ؛ طرز، طریقہ، رسم، رواج؛ حفاظت؛ تردد، فکر۔ (جامع الغات؛ پلیٹس)