دہقان

( دِہْقان )
{ دِہ + قان }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٤٧ء کو "فرحت کے مضامین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : دِہْقانوں [دِہ + قا + نوں (و مجہول)]
١ - دیہات یا گاؤں کا باشندہ، کسان، کاشتکار۔
"باپ بیٹے دونوں کی سلطانی نگاہیں بجائے کشتِ دہقان کے خانہ بدوش کے ڈیرے پر مزکور ہو کررہ گئیں۔"    ( ١٩٨٦ء، جوالا مکھ، ٧٧ )
٢ - [ مجازا ] ایران کے قریہ و دیہات کے رئیس لوگ۔
"اعلٰی طبقے کے بہت سے ایرانیوں (دہقانوں) نے اسلام قبول کر لیا۔"    ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٩٤١:٣ )
٣ - سردار، چودھری، بزرگ، نمبردار، قاضی۔
 آج کہ اک روٹی کی خاطر کارڈ دکھاتا پھرتا ہے سارے کمپ کو روٹی دے دے، ایسا ایسا دہقان تھا      ( ١٩٧٨ء، ابن انشا، دل وحشی، ٩٨ )
٤ - گنوار، اجڈ، جاہل۔
"عورتوں نے جو یہ دیکھا کہ ایک دہقان جوتیاں بغل میں دبائے اندر گھسا آرہا ہے تو غل مچا دیا۔"      ( ١٨٤٧ء، فرحت، مضامین، ٧٠:٣ )
  • a villager
  • husbandman;  head-man of a village