استحسان

( اِسْتِحْسان )
{ اِس + تِح (کسرہ ت مجہول) + سان }
( عربی )

تفصیلات


حسن  حُسْن  اِسْتِحْسان

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب استفعال سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں ١٨٣٨ء کو "بستان حکمت" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - پسندیدگی، مستحسن جاننا، اچھا سمجھنا۔
"میں آپ کے خیالات و جذبات کو سمجھتا اور ان کو بنظر استحسان دیکھتا ہوں۔"      ( ١٩٤٦ء، جھانسی کی رانی، ٦٣ )
٢ - [ اصول فقہ ]  قیاس خفی جس سے کسی فقہی مسئلے کے حل میں مدد لی جائے یا مجتہد کی اپنی رائے جو حکم شرعی کی صورت میں بیان کی جائے۔
"رسم و رواج، عقل و فکر و استحسان وغیرہ کے اصول پر سمجھ کر ان کا فیصلہ کیا۔"      ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبی، ١٨٣:٤ )
  • approving
  • praising;  taking or regarding as a favour