ذوالفقار

( ذُوالْفَقار )
{ ذُل (ا غیر ملفوظ) + فِقار }
( عربی )

تفصیلات


عربی سے مشتق صفت 'ذُو' کو حرف تخصیص 'ال' کے ذریعے عربی ہی سے مشتق اسم 'فقار' (بمعنی پٹھہ کی ہڈی) کے ساتھ ملانے سے مرکبِ توصیفی بنا۔ جو اردو میں اپنے روایتی معنوں و ساخت کے ساتھ بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٩١ء کو "گل و صنوبر" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم علم ( مؤنث - واحد )
١ - رسالت مآبۖ کی ایک تلوار کا نام، غزوۂ احد کے موقع پر آپۖ نے یہ تلوار حضرت علی کو اُن کی تلوار ٹوٹ جانے پر عنایت فرمائی تھی (اس تلوار کی پشت مہرہ ہائے پُشت کی طرح سیدھی تھی اس لیے یہ نام پڑا)۔
 تیغ نگاہ آبدار، تیرِ مژہ جہاں شکار اس پہ کمر میں ذوالفقار تیرے نثار ساقیا      ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، میخانہ الہام، ٧٢ )
٢ - [ مجازا ]  تلوار
 کرتے ہو قتل اشارۂ ابرو سے تیغ کو اس ذوالفقار کے ہیں یہ فقرے جڑے ہوئے      ( ١٨٧٣ء، دیوانِ بیخود (ہادی علی)، ٧٧ )
  • "the possessor (cleaver) of the vertebrae"
  • name of a celebrated sword