کسمسانا

( کَسْمَسانا )
{ کَس + مَسا + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور فعل لازم اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٠٩ء کو "کلیاتِ جرات" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - بے قرار ہونا، اکتاہٹ یا انقباض کی بنا پر اعضا کا اضطراری طور پر جنبش کرنا، پہلو بدلنا، بے چینی محسوس کرنا۔
 گو انتقام کا جذبہ تو کسمسانا ہے مگر تمہاری ضعیفی پہ رحم آتا ہے      ( ١٩٨٤ء، سمندر، ١٨٨ )
٢ - لہرانا حرکت کرنا، بل کھانا۔
"پر جب شہزادی باہوں کے حلقے میں کسمساتی تو اسے یکایک دھیان آتا۔"      ( ١٩٨٧ء، آخری آدمی، ٩٤ )
٣ - پہلو بدلنا، کروٹ لینا۔
"کسمسا کسمسا کر ریٹا نے آنکھیں کھولیں اور ان کو نماز پڑھتا دیکھنے لگی۔"      ( ١٩٨١ء، چلتا مسافر، ٢٥ )
٤ - اکتانا، گھبرانا، الجھن محسوس کرنا۔
"ہم کسمسائے مگر کہنا تو ماننا تھا۔"      ( ١٩٨٧ء، آجاؤ افریقہ، ١٠٦ )
٥ - انگڑائی لینا، بدن کو سمیٹنا، مچلنا۔
 ہوئی عقدہ کشائی غیب سے، ہم وصل میں، سمجھے جوان کے کسمسانے سے ہے ٹوٹا بند محرم کا      ( ١٨٨١ء، دیوان ماہ، ٤١ )
٦ - قابو سے نکلنے کی کوشش کرنا، تلملانا۔
 حلقۂ زلف نہیں حلقۂ آغوش ہے یہ کسمساتے ہو عبث زور لگاتے ہو عبث      ( ١٩٠٥ء، کفتار بیخود، ٧٤ )
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - جھر جھری، اضطراب، بیکلی، الجھن، مصیبت۔
"دلاور عباس تابڑ توڑ فقرے کہہ رہے تھے اور نوری کس مسارہے تھے۔"      ( ١٩٩٠ء، قومی زبان، کراچی، اگست، ٦٢ )