لرز

( لَرَز )
{ لَرَز }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ فعل 'لرزنا' کا حاصل مصدر 'لرز' اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٢٨ء کو "پس پردہ' میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - لرزنے کی کیفیت، لرزش، تھرتھراہٹ، کپکپاہٹ۔
"آواز میں ایک قسم کی لرز تھی جو دلوں میں لرزش پیدا کرتی تھی۔"      ( ١٩٢٨ء، پس پردہ، آغا حیدر حسن، ٢٢ )
١ - لرز اٹھنا
تھرا جانا، کانپ جانا، ڈر جانا۔"اندر جب پرتھوی کے پہلو سے پیدا ہو تو آسمان زمین اور پہاڑ لرز اٹھے۔"      ( ١٩٩٠ء، بھولی بسری کہانیاں، بھارت، ٢٨:٣ )
٢ - لرز جانا
تھرا جانا، کانپ اٹھنا، ڈر جانا۔ لرز جاتا تھا جس کو دیکھ کر اپنے نشیمن پر وہی بجلی چراغ آشیاں معلوم ہوتی ہے      ( ١٩٤٩ء، نبض دوراں، ٢٨٣ )