سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم 'لچک' کے ساتھ فارسی مصدر 'داشتن' سے صیغۂ امر 'دار' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب 'لچکدار' اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٩٣ء کو "مقدمہ شعر و شاعری" میں مستعمل ملتا ہے۔
١ - وہ (چیز) جس میں لچک ہو، لچکیلا، (مجازاً) ایک حالت یا صورت سے دوسری حالت یا صورت اختیار کرنے والا، نرمی کی گنجائش رکھنے والا، حالات کے مطابق بدلنے والا۔
"مسعود صاحب بہت زیادہ لچکدار نہیں واقع ہوئے ہیں۔"
( ١٩٨٩ء، نذر مسعود، ٥٠ )
٢ - [ معاشیات ] تغیر پذیر، ایک حالت پر برقرار نہ رہنے والا۔
"قیمت میں تدریجی اور دھیمی تخفیف ہوتی ہے، اس صورت میں اس شے کی طلب کو لچکدار یا تغیر پذیر کیا جاتا ہے۔"
( ١٩٣٧ء، اصول معاشیات (ترجمہ)، ١٨١:١ )