لپیٹنا

( لَپیٹْنا )
{ لَپیٹ (ی مجہول) + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


لپیٹ  لَپیٹْنا

سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم 'لپیٹ' کے ساتھ اردو قاعدے کے مطابق 'نا' بطور لاحقۂ مصدر لگانے سے 'لپیٹنا' اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٤٥ کو "قصہ بے نظیر" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - کسی گول یا چوکور وغیرہ چیز پر طرح چڑھانا، چوطرفہ بل دے کر باندھنا۔
 طمع کی مونہہ کو خلق سے لے پھیر بڑی مالا کو ہاتھ پر نہ لپیٹ      ( ١٨٤٤ء، ترجمۂ گلستان، حسن علی خاں، ١٢٢ )
٢ - نہ کرنا، موڑنا۔
"میں نے اپنا سامان لپیٹتے ہوئے پوچھا۔"      ( ١٨٦٩ء، غالب (غالب کی نادر تحریریں، ٦٢) )
٣ - اندر کچھ رکھنا، ملفوف کرنا۔
 مرشد اپنا آپ سمیٹنا گودڑیوں میں لال لپیٹینا      ( ١٦٥٤ء، گنج شریف، ١٤٠ )
٤ - سفر طے کرنا، مسافت پوری کرنا۔
"چھٹے دور نے ابھی آدھا راستا لپیٹا ہے۔"      ( ١٩٣٠ء، تاریخ نثر اردو، ٣٤:١ )
٥ - فیصلہ کرنا، مختصر کرنا، نباٹانا، ختم کر دینا۔
"چاہتے تھے کہ معاملے کو زبانی باتوں میں لپیٹ کر صلح کردیں۔"      ( ١٨٨٣ء، دربار اکبری، ٦٧٠ )
٦ - ضمن میں شامل کرنا، (ایک چیز کے ساتھ دوسری چیز کو)، الجھانا، گنجلک کرنا، گڈ مڈ کرنا۔
"اضافت سے کلام میں اختصار خوب ہوا کیونکہ اضافت نے اپنی مروڑ میں کئی لفظوں کو لپیٹ لیا۔"      ( ١٨٨٧ء، سخندان فارس، ٣٠٤:٢ )
٧ - آلودہ یا ملوث کرنا (کسی بات خصوصاً جرم، الزام، تکلیف وغیرہ میں) (ساننا، شامل کرنا)۔
"خواہ مخواہ تم نے اتنی باتیں بنائیں اور ساتھ ہی مجکو بھی لپیٹا۔"      ( ١٨٩٥ء، حیات صالحہ، ٥٢ )
٨ - (کسی چیز کو) چھپانے کے لیے کسی چیز پر بطور پوشش یا غلاف چڑھانا، ڈھانکنا۔
"تیتر کو اچھی طرح سے دھو کر مصالحے میں اچھی طرح سے لپیٹ دیں۔"      ( ١٩٨٥ء، سعدیہ کا دسترخوان، ١٤٠ )
٩ - مائل کرنا، فریفتہ یا متوجہ کرنا۔
 چاند سے منہ کو دکھا ابرسیہ سی زلفیں کبک و طاؤس کو بھی اپنی طرف پارلیپٹ      ( ١٨٤٦ء، آتش، کلیات، ٢٣٠ )
١٠ - اٹھا رکھنا، ترک کرنا۔
"ہمیں ماضی کے گلے شکوؤں کو لپیٹ کر ایک نیا ورق پلٹنا چاہیے۔"      ( ١٩٨٢ء، آتش چنار، ٦٨٦ )