لبھانا

( لُبھانا )
{ لُبھا + نا }
( ہندی )

تفصیلات


ہندی زبان سے ماخوذ صفت 'لبھاؤنا' کی تصحیف 'لبھانا' اردو میں بطور فعل متعدی اور گا ہے بطور فعل لازم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٠٣ء کو "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - گرویدہ ہونا، ریجھنا، فریفتہ ہونا۔
"شادی نے اسے کچھ سنجیدہ مزاج بنا دیا تھا، اس اس کے لبھاؤ میں ایک سنجیدگی اور ٹھہراؤ آگیا تھا۔"      ( ١٩٨٧ء، روز کا قصہ، ٢٣٤ )
فعل متعدی
١ - مائل کرنا، گرویدہ بنانا، موہ لینا۔
"واقعی تو نے اپنی اس نیک اطواری سے میرا دل لبھا لیا ہے۔"      ( ١٩٤٠ء، الف لیلہ و لیلہ، ٣٣٥:١ )
٢ - لالچ دینا، پرچانا، رغبت دینا۔
"ایسا نہ ہو کہ وہ مجھے (آسمان پر میری اونچی) جگہ سے بے دخل کر دے? جا اور اسے لبھا اس کی ریاضت میں خلل ڈال کر مجھے فائدہ پہنچا۔"      ( ١٩٩٠ء، بھولی بسری کہانیاں، بھارت، ٥٣٤:٢ )
٣ - بہکانا، ورغلانا، پھسلانا۔
"اب روح صعود یعنی (Ascent) کی طرف خود بھی مائل ہے اور گل کو بھی اس طرف لبھا رہی ہے۔"      ( ١٩٩٠ء، قومی زبان، کراچی، نومبر، ٢٠ )