ہندی زبان سے ماخوذ صفت 'لبھاؤنا' کی تصحیف 'لبھانا' اردو میں بطور فعل متعدی اور گا ہے بطور فعل لازم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٠٣ء کو "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔
"واقعی تو نے اپنی اس نیک اطواری سے میرا دل لبھا لیا ہے۔"
( ١٩٤٠ء، الف لیلہ و لیلہ، ٣٣٥:١ )
٢ - لالچ دینا، پرچانا، رغبت دینا۔
"ایسا نہ ہو کہ وہ مجھے (آسمان پر میری اونچی) جگہ سے بے دخل کر دے? جا اور اسے لبھا اس کی ریاضت میں خلل ڈال کر مجھے فائدہ پہنچا۔"
( ١٩٩٠ء، بھولی بسری کہانیاں، بھارت، ٥٣٤:٢ )
٣ - بہکانا، ورغلانا، پھسلانا۔
"اب روح صعود یعنی (Ascent) کی طرف خود بھی مائل ہے اور گل کو بھی اس طرف لبھا رہی ہے۔"
( ١٩٩٠ء، قومی زبان، کراچی، نومبر، ٢٠ )