عمر رواں

( عُمْرِ رَواں )
{ عُم + رے + رَواں }

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم 'عمر' کے آخر پر کسرۂ صفت لگا کر فارسی سے ماخوذ اسم صفت 'رواں' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٨٧٠ء کو "دیوان اسیر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - گزرتی ہوئی زندگی، عمر جو ہر وقت و ہر لحظہ رواں ہے، جاتی ہوئی حیات۔
"کہ میں نے کتابوں کی اس عرق ریزی میں عمر رواں کے بہت دن گنوائے مگر کچھ نہ پایا۔"      ( ١٩٨١ء، اکیلے سفر کا اکیلا مسافر، ٩٣ )