استغنا

( اِسْتِغْنا )
{ اِس + تِغ + نا }
( عربی )

تفصیلات


غنی  اِسْتِغْنا

عربی زبان سے ثلاثی مزید فیہ کے باب استفعال مہموز الام سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ عربی میں اصل لفظ 'اِسْتِغْناء' ہے لیکن میں 'ء' کی آواز نہ ہونے کی وجہ سے حذف کر دیا گیا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر، مؤنث - واحد )
١ - بے نیازی، بے پروائی، بے غرضی؛ بے رخی، بے التفائی۔
 آرزو کا خون ہونا ہے یہ ظاہر ہو گیا آج مجھ کو رنگ استغنائے قاتل دیکھ کر      ( ١٩٥٠ء، ترانۂ وحشت، ٤٣ )
٢ - دنیا اور اس کی لذتوں سے روگردانی، ضروریات کی فکر نہ ہونا، (خود داری کے ساتھ) قناعت اور توکل۔
 خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں زَرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا      ( ١٩٣٥ء، بال جبریل، ٢٨ )
٣ - توانگری، دولت مندی، غنی ہونا۔
 عشق ہے سرمایہ دار گنج مخفی اے نصیر احتیاج عاشقاں ہے پیش استغنائے عشق      ( ١٨٤٠ء، نصیر، چمنستان سخن، ٩٥ )
٤ - [ تصوف ]  سلوک کی وہ منزل جہاں پہنچ کر سالک خدا کے سوا ہر چیز سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔
"جب طالب ان چار مقامات کو طے کر چکا تو مرشد مقام استغنا سے اس کو مشرف فرماتا ہے۔"      ( ١٨٨٤ء، تذکرۂ غوثیہ، ١٥٦ )
  • ability to dispense with
  • independence (IN Point of fortune
  • opulence;  content