سوالیہ علامت

( سَوالِیَہ عَلامَت )
{ سَوا + لِیَہ + عَلا + مَت }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ مرکب توصیفی ہے۔ عربی سے اسم صفت 'سوالیہ' کے ساتھ عربی ہی سے مشتق اسم 'علامت' بطور موصوف ملنے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٩٨١ء کو "تشنگی کا سفر" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ ( مؤنث - واحد )
١ - سوالیہ نشان (?)، وہ علامت جو کسی جواب طلب جملے کے سامنے لگائی جاتی ہے؛ (مجازاً) استفہامیہ۔
"نئی عالمگیر جنگ کا ہولناک اندیشہ دنیا کے ہر انسان کے دل میں ایک سوالیہ علامت بن گیا ہے۔"      ( ١٩٨١ء، تشنگی کا سفر، ٩٦ )