سوالیہ نشان

( سَوالِیَہ نِشان )
{ سَوا + لِیَہ + نِشان }

تفصیلات


عربی سے ماخوذ اسم صفت 'سوالیہ' کے ساتھ فارسی اسم 'نشان' بطور موصوف بڑھانے سے مرکب توصیفی بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور ١٩٧٥ء کو "پہلی قومی کانگریس برائے فروغ عربی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
١ - وہ علامت جو کسی جواب طلب جملے کے سامنے لگائی جاتی ہے (?)؛ مجازاً استفہامیہ۔
"آٹھ بجے پاکستان کی خبریں سننے سارے گھر والے اکھٹے ہوئے خبروں کے بعد سب کے چہرے سوالیہ نشان بنے ہوئے تھے۔"      ( ١٩٨٨ء، صدیوں کی زنجیر، ٦١٧ )
٢ - [ مجازا ]  حل طلب مسئلہ، عقدۂ لایخل، معمہ۔
"کیا اس کانگریس میں شرکت کے بعد کوئی مندوب ان تاریخی سوالیہ نشانات کو نظر اندار کر سکتا ہے۔"      ( ١٩٧٥ء، پہلی قومی کانگریس برائے فروغ عربی، ١٠ )