سوجنا

( سُوجْنا )
{ سُوج + نا }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت سے اردو میں ماخوذ اسم 'سُوج' کے ساتھ اردو قاعدے کے تحت علامت مصدر 'نا' بڑھانے سے 'سوجنا' بنا۔ اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے اور ١٧٩٥ء کو "فرس نامۂ رنگین" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - سُوجن چڑھنا، آماس یا ورم آنا، متورم ہونا۔
"چشتی نے اسے دیکھا اسی کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔"      ( ١٩٨٣ء، ساتواں چراغ، ١٧٢ )
٢ - [ کنایۃ ]  غصّے یا بدمزاجی سے مُنہ پھولنا۔
 جو حقِ نمک اس کا بُھولے رہیں وہ سوجے رہیں اور پھولے رہیں      ( ١٧٨٤ء، مثنوی درتہنیتِ عید (مثنویاتِ میر حسن)، ٢٢٢:١ )