عہد الست

( عَہْدِ اَلَسْت )
{ عَہ (فتحہ مجہول ی) + دے + اَلَسْت }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم 'عہد' کے آخر پر کسرۂ اضافت لگا کر عربی صیغہ واحد متکلم 'لست' کے ساتھ 'ا' بطور سابقہ سوالیہ لگنے سے 'الست' بنا۔ اور بطور تلمیح لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٨٧٠ء کو "دیوان اسیر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
١ - روز ازل کا وعدہ، اللہ تعالٰی اور انسان کے مابین پیمان جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے، روز اول کا قول و قرار، خلقت، عالم سے پہلے عالم ارواح میں خدائے تعالٰی کے حضور اس کی الوہیت کا قول و قرار۔
 یہ بیکرانہ و مستانہ زندگی کے فیوض کہ جن سے عہد الست استوار ہوتا ہے      ( ١٩٦٢ء، برگ خزاں، ٢٣ )