استوار

( اُسْتُوار )
{ اُس + تُوار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ پہلوی میں 'ہوستبار' یا 'استوبار' اس کے مترادف استعمال ہوتا تھا پہلوی سے فارسی میں تغیر کے ساتھ داخل ہوا۔ اردو میں 'استوار' ہی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٨١ء کو "جنگ نامہ" از سیوک میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - مستحکم، مضبوط، پختہ (عمارت وغیرہ)
 کرتا رہ استوار اساس حریم دیں اور ساتھ ساتھ کفر کی بنیاد ڈھائے جا    ( ١٩٣١ء، بہارستان، ظفر علی خاں، ١٥٨ )
٢ - نہ ٹوٹنے والا، ناقابل رد، جس کا جواب نہ ہو سکے یا جسے شکست نہ کیا جا سکے (بیان وغیرہ)۔
"آپ کی تقریر . واضح اور دلیلیں . استوار ہیں۔"    ( ١٨٣٧ء، ستہ شمسیہ، ٥٢:٢ )
٣ - ثابت، اٹل، غیر متزلزل، حتمی، ایک اصول اور ضابطے پر قائم؛ منظم و مرتب۔
 اے ترے سوز نفس سے کار عالم استوار تو نے جب چاہا کیا ہر پردگی کو آشکار      ( ١٩٣٨ء، ارمغان حجاز، ٢٢٠ )
٤ - مبوط بندھا ہوا، کس کر باندھا ہوا، کسا جکڑا۔
 کیوں روکتے ہو ہم کو مسافر عدم کے ہیں کھلنا محال ہے کمر استوار کا      ( ١٨٦٦ء، ہزبر، دیوان، ٦ )
٥ - ہموار، یکساں، معتدل
"یہ درخت کے اندر رگ و پٹھوں کو استوار حالت میں قائم رکھنے کے واسطے بھی . ضروری ہے۔"      ( ١٩١٠ء، تربیت الصحرا، ١٢ )
متعلق فعل
١ - قوت کے ساتھ، زور سے
 لوگ بولے نئیں ہے ہم کو اقتدار کہ قدم اس پر رکھیں ہم استوار      ( ١٧٩١ء، ریاض العارفین، ٢٥ )