دیگر

( دِیگَر )
{ دی + گَر }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت عددی
١ - جو ترتیب کے اعتبار سے ایک کے بعد ہو، دوسرا، دوبارہ۔
"برلن میں دستخط ثبت کئے گئے جس کی رو سے حکومتوں کے حقوق کی بار دیگر تصدیق کی گئی۔"      ( ١٩٢٥ء، تاریخ یورپ جدید (ترجمہ)، ٢٨٠ )
٢ - علاوہ، اور، باقی، ماسوا۔
"زکوٰۃ کے آٹھ مصرف تھے . فقرا، مساکین، نو مسلم، کلام . مقروض، مسافر، محصلین زکوۃ کی تنخواہ، دیگر کارِ خیر۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ٨٠:٢ )
٣ - کچھ
"اور چند روز ہوئے ریل پر ساتھ ہو گیا تھا جب سے شناسائی ہو گئی ہے، دوستی چیز دیگر ہے۔"      ( ١٩٢١ء، خونی شہزادہ، ٦٧ )
٤ - غیر، اجنبی۔
 پدر سے بھی تو بلکہ بہتر ہیں آپ سدا آپ کی مہربانی رہے نہ دیگر ہوں میں اور نہ دیگرہیں آپ      ( ١٨٨٢ء، ظلم عمران روسیاہ (رونق کے ڈرامے)، ١٧٥:٥ )
٥ - بعد دوپہر کا وقت، عصر۔ (جامع اللغات)