استوا

( اِسْتِوا )
{ اِس + تِوا }
( عربی )

تفصیلات


سوی  اِسْتِوا

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب افتعال مہموز اللام سے مصدر 'اِسْتِواء' ہے۔ آخری 'ء' کی آواز اردو میں ادا نہ ہونے کی وجہ سے حذف کر دیا گیا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٩٨ء کو بیان کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - ہمواری، برابری، مساوی ہونا۔
"وقت تحویل میزان ہے اور وقت استواے لیل و نہار۔"      ( ١٨٩١ء، ترجمۂ عجائب القصص، ٣٩٢:٢ )
٢ - غلبہ، تسلط، غالب یا مسلط ہونا(خصوصاً خدائے تعالٰی کا عرش پر)۔
"استواء عرش کے معنی وہ اقتدار اور قدرت کے لیتے ہیں۔"      ( ١٩١٤ء، شعرالعجم، ١٨٢:٥ )
٣ - [ جغرافیہ ]  وہ فرضی دائرہ جو مشرق سے مغرب تک قطبین سے برابر فاصلے پر کھینچ کر کرۂ ارض کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرتا ہے، خط استوا۔
 مقامات قطبین اور استوا ممالک اقالیم آب و ہوا      ( ١٩١١ء، کلیات اسماعیل، ٢٣ )
٤ - سورج کا خط استوا پر ہونا۔
 ہے جوانی میں کچھ اوری اس کے مکھڑے کی چمک تابش خورشید وقت استوا کچھ اور ہے      ( ١٨٥٨ء، تراب، کلیات، ٢١ )
٥ - قیام، تنصیب، برپائی، قائم یا برپا ہونا۔
"یہ سب صورتیں فلک کے استوا میں ہیں۔"      ( ١٨٥٦ء، فوائد الصبیان، ٧٦ )
٦ - وہ رومال وغیرہ جو تاج کے گرد لپیٹا جاتا ہے۔ (کشاف اسرار المشائخ، 234)
٧ - [ طب ]  زخم کا پختگی کی علامت ظاہر کرنا۔ (مخزن الجواہر؛ 55)
  • equality;  parallelism;  what is level or parallel