پونچھنا

( پونْچْھنا )
{ پونْچھ (و مجہول، ن مغنونہ) + نا }
( ہندی )

تفصیلات


ہندی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور فعل استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٢٨ء کو "لازم المبتدی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - (کپڑے سے گرد وغیرہ) صاف یا خشک کرنا۔
 زیس کہ پونچھا ہے رخ سے بجاے اشک بار غبار سے مرا دامن ہے دامنِ کہسار      ( ١٨٨٦ء، دیوان سخن، ٣٦ )
٢ - گیلی چیز کو (کپڑے وغیرہ سے) صاف کرنا۔
 محشر میں کیا اور بھی رسوائے ندامت پوچھے مرے اشک اس نے مرے دامنِ تر سے      ( ١٩١٩ء، رعب، کلیات، ٢٠٥ )
٣ - آلایش سے پاک کرنا۔
"کمبل کے دامن سے پیشانی کا خون پونچھ کر ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے۔"      ( ١٩٢٩ء، آمنہ کا لال، ١٠٣ )