لفافہ

( لِفافَہ )
{ لفا + فَہ }
( عربی )

تفصیلات


لفف  لِفافَہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٨٨ء کو "ہدایات ہندی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : لِفافے [لِفا + فے]
جمع   : لِفافے [لِفا + فے]
جمع غیر ندائی   : لِفافوں [لِفا + فوں (و مجہول)]
١ - کاغذی غلاف جس میں چٹھی رکھ کر پوسٹ باکس میں ڈال دیتے ہیں، کور۔
"پرنس چارمنگ نے پاؤں والا لفافہ اٹھایا، اسے غور سے دیکھا اور پھر لفافہ میز پر رکھ دیا۔"    ( ١٩٨١ء، سفر در سفر، ٤٤ )
٢ - اوپر کا خول یا پوشش جس کے اندر جسم مخفی ہو، لپیٹنے کی چیز، جس میں کچھ لپیٹا جائے، ظاہری لباس۔
"یہ جتنے اجلے اجلے کپڑے والے سفید پوش بازاروں میں پھرتے ہیں، بس یہ ان کا خالی لفافہ ہی لفافہ ہے۔"    ( ١٩١٣ء، انتخاب توحید، ٦٢ )
٣ - [ نباتیات ] پھول یا بیج کا غلاف، کاسۂ گل نیز مسند گل۔
"ہر گھنڈی مشتمل ہوتی ہے دولفافوں پرپکنے کے بعد اوپر کا لفافہ کھل جاتا ہے اور دوسرا بند رہتا ہے۔"    ( ١٩٢٦ء، خزائن الادویہ، ٤٠:٣ )
٤ - سفید چادر یا کپڑا جو مردے کے بدن پر لپیٹا جاتا ہے جس میں رکھ کر مردے کی تدفین کی جاتی ہے، بوٹ۔
"مرد کی میت کے واسطے یہ تین کپڑے سنت ہیں، ازار، لفافہ، قمیض۔"      ( ١٩٠٥ء، رسوم دہلی، سید احمد دہلوی، ١٠٨ )
٥ - بناوٹ، ظاہری شان، دکھاوا، طمع۔
"میں نے ایسے صوفی اور علما بھی دیکھے جو بڑے دلکش لفافے نکلے۔"      ( ١٩٨٤ء، کیا قافلہ جاتا ہے، ٢٧ )
٦ - حسن و قبح، عیب و صواب (جو ظاہر نہ ہو اور بھید کی طرح مخفی ہو)، نیز لاز، بھید۔
"ان بزرگ ذات نے اس میں تراش خراش اور وضعداری کو ایسا شامل کیا کہ کپڑوں نے اندرون دل تک لفافہ ادھیڑ کر رکھ دیا۔"      ( ١٨٧٧ء، توبۃ النصوح، ٣١٥ )
٧ - [ کنایۃ ]  جلد ٹوٹنے والی چیز، نازک چیز۔ (نوراللغات، علمی اردو لغت)۔
٨ - مشک نافہ جس سے مشک نکلتا ہے، وہ تھیلی جس میں مشک رکھا گیا ہو، (کنایہً) خوشبو کا گھر۔
 لکھا ہوں خط میں ترے خط عنبریں کی صفت بجا ہے اس کوں اگر میں کہوں لفافۂ مشک      ( ١٧٣٩ء، کلیات سراج، ٢٩٩ )
١ - لفافہ چڑھانا
ظاہر ٹیپ ٹاپ کرنا، نمائشی دلکشی، سجاوٹ یا پختگی وغیرہ پیدا کرنا۔"فوراً سپاہی نوکر رکھ لیے اور لفافہ چڑھا کر موجودات دلوائی۔      ( ١٨٨٣ء، دربار اکبری، ٦٥٥۔ )