کر

( کَر )
{ کَر }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ مصدر 'کرنا' کا صیغہ امر ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم، حرف عطف اور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

حرف عطف
١ - کے، دو افعال کے درمیان اظہار کے لیے۔
"وہ. مخالفین کے طعن و تشنیع سے لے کر اتہام تک سہتے رہے۔"      ( ١٩٩١ء، افکار، کراچی، دسمبر، ٤٧١ )
٢ - کی طرح۔
"بیٹیوں کوں اپنی بہنیں کر جان اور میرے بیٹوں کو اپنا بھائی پہچان۔"      ( ١٧٣٢ء، کربل کتھا، ١٣٣ )
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - کرنا کا امر، تراکیب میں مستعمل۔
 آرزو بھی تو کر نہیں آتی دل میں ہے ہونٹھ پر نہیں آتی      ( ١٩٣٢ء، ریاض رضواں، ٣٨٠ )
متعلق فعل
١ - کرکے۔
"فعل معطوف امر کے آگے کر بڑھانے سے بنتا ہے۔"    ( ١٩٧٣ء، جامع القواعد (حصّہ نحو)، ١٦٧ )
٢ - مان کر، تسلیم کرکے۔
 سر اسکا توں سکتا ہے لیا نے اگر تو اُن لوڑتی ہے تجے مرد کر    ( ١٦٣٩ء، طوطی نامہ، غواصی، ٤٩ )
٣ - کہہ کر۔
 مجرد رہو کر ہے قرآن میں مفرد رہو کر ہے فرقان میں      ( ١٦٨٥ء، معظم بیجاپوری، گنج مخفی (قدیم اردو، ٢٦٤:١) )
٤ - رعایت سے، لحاظ سے۔ (جامع اللغات)
٥ - بطور زائد۔
 خدا دل اس کا دے تجھ پر پھرا کر تجھے اس ماہ رو سے دے ملا کر      ( ١٧٩٧ء، عشق نامہ، فگار، ١٣٢ )