کٹا

( کَٹّا )
{ کَٹ + ٹا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور صفت اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٩ء کو "طوطی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : کَٹّے [کَٹ + ٹے]
جمع   : کَٹّے [کَٹ + ٹے]
١ - سنگ دل، شقی القلب۔ (سرمایہ زبان اردو)
٢ - پتھر، سخت اور ٹھوس چیز، بند۔
"تالاب کے کٹے یا بند عموماً دو قسم کے ہوتے ہیں ایک مٹی کا اور دوسرا چونے یا پتھر یا سیمنٹ کا۔"      ( ١٩٤٤ء، مخزن علوم و فنون، ١٦ )
٣ - گٹا
"خدا کے سامنے . بڑی بڑی ڈاڑھی والوں اور پیشانی پر رگڑ کر کٹا ڈالنے والوں . اس کا سوال ہو گا۔"      ( ١٨٨٤ء، مکمل مجموعہ لیکچرزو اسپیچز، ٢٨٧ )
٤ - ایک مرض کٹّا ہے جو منھ کے اندر زبان میں زخم پڑ جاتا ہے اور جانور کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ (محب المواشی، 26)
٥ - تنکوں یا پھوس وغیرہ کا مجموعہ جو ہاتھ میں آسکے، مٹھا، گٹھا۔
"بازو پر دونوں طرف پروں کا کٹا بندھا ہوتا ہے۔"      ( ١٩٧٠ء، اردو نامہ، کراچی، ٣٩:٣٠ )
٦ - پانی روکنے کا بند (جو دریا وغیرہ میں باندھتے ہیں)۔
"اس تالاب کے کٹا یعنی بند کا عرض پچاس گز ہے۔"      ( ١٨٨٩ء، حسن، جنوری، ٤٧ )
٧ - آدھی بوری، چھوٹی بوری۔ (مہذب اللغات)
٨ - بھینس کا نر بچہ، کٹڑا۔
"٢١ دن کے بعد کٹے یا بچھڑے کو آدھی چھٹانک کمیلا دودھ یا لسی میں ملا کر پلا دیا جائے۔"      ( ١٩٦٧ء، مویشیوں کے امور، ٩٢ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : کَٹّی [کَٹ + ٹی]
واحد غیر ندائی   : کَٹّے [کَٹ + ٹے]
جمع   : کَٹّے [کَٹ + ٹے]
جمع غیر ندائی   : کَٹّوں [کَٹ + ٹوں (واؤ مجہول)]
١ - طاقتور، زور آور، تندرست و توانا، فربہ (بیشتر ہٹا کے ساتھ مستعمل)۔
 کٹّا کروں موٹا کروں موٹا نہ ہو تو پھر کیا کروں      ( ١٩١٩ء، خواب راحت، ١١ )
٢ - (اپنے نظریے مسلک یا مذہب میں) استحکام رکھنے والا، راسخ العقیدہ، متعصب، کٹر۔
"اُن کی ان کی کبھی نہیں بنی، ان کی کٹی دشمن تھیں۔"      ( ١٩٧١ء، اردو نامہ، کراچی، ٩٦:٣٩ )