کڑکڑانا

( کَڑْکَڑانا )
{ کَڑ + کَڑا + نا }
( مقامی )

تفصیلات


بحوالہ 'حکایت الصوت' اسم صوت 'کڑکڑ' کے ساتھ اردو قاعدے کے مطابق 'انا' بطور لاحقۂ مصدر و تعدیہ لگانے سے 'کڑکڑانا' بنا۔ اردو میں بطور فعل متعدی و لازم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستمعل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - گھی یا تیل کو نیز آنچ پر خوب گرم کرنا، کھولانا۔
گھی کڑکڑا کے پیاز کے لچھے اس میں تل لیں۔"      ( ١٩٣٢ء، مشرقی مغربی کھانے، ٨٣ )
٢ - باجے وغیرہ کو زور سے بجانا۔
 زنبورچی شلکیں اوڑاتے طنبور تلنگے کڑ کڑاتے      ( ١٨٨١ء، مثنوی نیرنگ خیال، ١٢٥ )
٣ - تیز دوڑانا، سرپٹ دوڑانا۔
"گھوڑے کو کڑکڑا کر ایک ہاتھی کی جانب دوڑے۔"      ( ١٨٩٢ء، خدائی فوجدار، ٥٠:١ )
٤ - دانت پیس کر آواز نکالنا۔
"مرکب پر سوار ہوئے اور کڑکڑا کر پودا باگ کا لیا۔"      ( ١٩٠٤ء، آفتاب شجاعت، ٢٦١:٤ )
٥ - کواڑ وغیرہ کھٹکانا۔
"غلام باتوں کے کواڑ کڑکڑانے اور غلاموں کو مشقت کے لیے ہنکانے کی آوازیں آئیں۔"      ( ١٩٧١ء، صلبیح مرے دریچے میں، ١٧٠ )
٦ - بجلی کا کڑکا۔
 بجلی کا رتھ بادلوں پر کڑکڑا رہا ہے اب قریباً اندھیرا چھا چکا ہے      ( ١٩٤٩ء، کلیات میراجی، ٧٨٢ )
٧ - دانتوں کا آپس میں رگڑ کھا کر آواز دینا کٹکٹانا۔
"ایسے وقت میں . صرف دانت کڑکڑانے لگتے اور دل سرد ہونے لگتا ہے۔"      ( ١٩٣٧ء، فلسفہ نتائجیت، ١٤٩ )
٨ - کسی سخت چیز کا ٹوٹتے وقت آواز دینا۔
"اور کانٹوں کی ٹوٹتی نوکیں ہمارے قدموں کے نیچے کڑکڑانے لگتی ہیں۔"      ( ١٩٧٥ء، مرے خدا مرے دل، ١٠٦ )
٩ - دیوار وغیرہ کا دھماکے کے ساتھ ڈھینا نیز گرتے وقت کڑکڑکی آواز پیدا ہونا، تیورانا۔
"گلچیں سجدے کر رہی تھی، سر اٹھا کر جو لاشۂ باغبان دیکھا تاب نہ باقی رہی، ہائے میرے وارث کہہ کے مشعل پر جا پڑی، کڑکڑا کر گری۔"      ( ١٨٩٢ء، طلسم ہو شربا، ١٣٢:٦ )
١٠ - انگلیوں یا ہڈیوں کا چٹنخے کی آواز نکالنا۔
"چالیس برس کے باوجود بدن زیادہ چیخنے یا کڑکڑانے کے بغیر اب بھی تیزی سے بھاگ دوڑ سکتا ہے۔"      ( ١٩٥٢ء، صلیبیں مرے دریچے کی، ٣٥ )
  • to cause to crackle;  to boil (oil or ghi);  to melt down (fat);  to grind or gnash (the teeth)