سوزیقیں

( سوزِیَقِیں )
{ سو (و مجہول) + زے + یَقیں }

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم کیفیت 'سوز' بطور مضاف کے ساتھ کسرۂ اضافت بڑھا کر عربی سے اسم مشتق 'یقین' بطور مضاف الیہ بڑھانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور ١٩٣٥ کو "بال جبریل" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - یقین کی آگ؛ مراد: جذبۂ ایمانی،اس بات کا یقین محکم کہ جد و جہد کریں گے تو ضرور کامیابی ہو گی، پختہ عقیدے سے پیدا ہونے والا جوشِ عمل۔
 گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقین سے کنجشکِ فرو مایہ کو شاہین سے لڑا دو      ( ١٩٣٥ء، بالِ جبریل، ١٤٩ )