سوندھا

( سَونْدھا )
{ سَون (و لین، ن مغنونہ) + دھا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت سے اردو میں ماخوذ ہے اور عربی رسم الخط میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اردو میں سب سے پہلے ١٧٨٦ء کو "دو نایاب زمانہ بیاضیں" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : سَونْدھی [سَون (و لین، ن مغنونہ) + دھی]
واحد غیر ندائی   : سَونْدھے [سَون (و لین، ن مغنونہ) + دھے]
١ - مٹی یا مٹی کے کورے برتن پر پانی پڑنے سے نکلنے والی بھینی بھینی خوشبو والا، گرم بالو، ریت اور آگ میں بھُنی ہوئی چیز جیسی خوشبو والا، خوشبودار۔
"وہ کوری صراحی اور بغیر برف کے اس کا وہ ٹھنڈا میٹھا جسم میں اُتر جانے والا سوندھا پانی اب کہاں نصیب۔"      ( ١٩٨٧ء، حیاتِ مستعار، ٦٥ )
٢ - ایک مرکب خوشبودار مسالا جو سر کے بال دھونے یا کپڑوں وغیرہ میں لگانے کے کام آتا ہے۔
"سوندھے کی بُو سے تمام باغ مہک رہا تھا۔"      ( ١٨٠٢ء، نثرِ بے نظیر، ٨٩ )
٣ - قلم لگانے کے بجائے مٹی کی تبدیلی یا ملاوٹ۔
"وہ کہ ایک جگہ سے درخت اُکھاڑ کر دوسری جگہ لگاتے ہیں، اس کو مرویا اور سوندھا اور لاوک کہتے ہیں۔"      ( ١٨٤٨ء، توصیف زراعات، ٧٠ )