سوجھنا

( سُوجْھنا )
{ سُوجھ + نا }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت سے اردو میں ماخوذ اسم 'سوجھ' کے ساتھ اردو قاعدے کے تحت علامتِ مصدر 'نا' بڑھانے سے 'سوجھنا' حاصل ہوا۔ اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے اور ١٦٥٤ء کو "گنج شریف" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - دکھائی دینا، نظر آنا۔
"بڑے میاں کی عمر سو کے قریب تھی. آنکھ سے سوجھتا بھی نہ تھا۔"      ( ١٩٨٥ء، روشنی، ٤١٠ )
٢ - محسوس ہونا، معلوم ہونا (آنکھ کے علاوہ دیگر حواس، آثار وغیرہ سے)
 کہتی رہتی تھی سراسیمگی دل کچھ کچھ سوجھتا تھا ہمیں پہلے ہی سے جانا دل کا      ( ١٨٩٩ء، دیوانِ ظہیر، ٢٩:١ )
٣ - بصیرت پر واضح ہونا، سمجھ یا عقل میں آنا۔
 الکحل کرتی ہے خوابیدہ رگوں سے چہلیں سوجھتی ہے دلِ وحشی کو بڑی دور کی بات    ( ١٩٧٨ء، ابنِ انشا، دلِ وحشی، ٩٤ )
٤ - تمیز یا امتیاز ہونا۔
 بدمستئ شباب میں فکر مآل کیا ایسے میں سوجھتا ہے حرام و حلال کیا    ( ١٩٠٥ء، داغ، یادگارِ داغ، ١٧ )
٥ - ذہن میں آنا، خیال میں گزرنا۔
"انہیں پھر یہی سوجھی کہ مجھے منظر سے ہٹانا ان کی کامیابی کی پہلی شرط ہے۔"      ( ١٩٨٢ء، آتشِ چنار، ١١١ )
٦ - مشغلہ ہونا، عمل میں لانا (طنز یا اعتراض کے موقع پر)۔
 سوجھتی ہے ایسی ہی انہیں جو پھوٹنے والی آنکھیں ہیں      ( ١٩٣٨ء، سریلی بانسری، ٦٧ )
٧ - عزم ہونا، دُھن ہونا۔
"مفت کی یہ رقم وصول ہونے پر بعض امورِ خیر پر صرف کرنے کے بعد مجھے زیارات کی سوجھی۔"      ( ١٩٤٤ء، سوانح عمری و سفرنامہ (حیدر)، ٨٦ )