سودا زدہ

( سَودا زَدَہ )
{ سَو (و لین) + دا + زَدَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے مرکبِ وصفی ہے۔ فارسی سے ماخوذ اسم 'سودا' کے ساتھ فارسی مصدر 'زدن' سے فعل امر 'زد' میں 'ہ' بطور لاحقہ حالیہ تمام کے اضافہ سے 'زدہ' ملانے سے مرکب 'سودا زدہ' بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور ١٧٩٢ء کو "دیوانِ محب" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - دیوانہ، سودائی۔
"اس وحشی مگر فسوں کار سودا زدہ مرد کی آغوش سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کر رہی تھی۔"      ( ١٩٤٠ء، سجاد حیدر، خیالستان، ٤٥ )