لہکنا

( لَہَکْنا )
{ لَہَک + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


لہک  لَہَکْنا

سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم 'لہک' کے ساتھ 'نا' بطور لاحقۂ مصدر لگانے سے 'لہکنا' بنا۔ اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٤١ء کو "دیوان شاکر ناجی" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - چہکنا، چہچہانا، نغمہ سرا ہونا نیز خوش ہونا۔
"است (آئس) انہیں ماں کی بے ساختہ، لہکتی اور اٹوٹ چاہت سے نوازتی تھی۔"      ( ١٩٩٠ء، بھولی بسری کہانیاں، مصر، ١٣٩:١ )
٢ - بھڑکنا، دہکنا، شعلہ زن ہونا۔
"کیا لپکتا لہکتا گیت ہے کہ ابابیل کی طرح اوپر ہی اوپر جاتا ہے۔"      ( ١٩٨٣ء، اجلے پھول، ٧ )
٣ - لہلہانا، موج مارنا، سبزے وغیرہ کا لہرانا، جھومنا۔
 پرداخت نہ ہونے پہ بھی جو لہکا ہے دب دب کے جو اخگر کی طرح دہکا ہے      ( ١٩٤٧ء، لالہ و گل، ٤٩ )
٤ - لچکنا، بل کھانا۔
 کمر نزاکت سے لہکی جائے، کہ ہے نزاکت کا بار اٹھائے اور اس پہ سر نور لہر کھائے، پھر اس پہ ہیں دو قمر فروزاں      ( ١٨٥٤ء، زوق، دیوان، ٢٦٣ )
٥ - چمکنا، روشن ہونا، جھلکنا، درخشاں ہونا۔
 آتش گل سے وہ سارا باغ تھا لہکا ہوا تھا شمیم یا سمن سے سر بسر مہکا ہوا      ( ١٩٢٢ء، پریم ترنگنی، ١٦ )