لڑکھڑانا

( لَڑْکَھڑانا )
{ لَڑ + کھڑا + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


لڑ+سکھل  لَڑْکَھڑانا

سنسکرت کے اصل لفظ 'لڑ + سکھل' سے ماخوذ 'لڑکھڑانا' اردو میں بطور فعل لازم اور گاہے بطور فعل متعدی استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٧٠ء کو "دیوانِ اسیر" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - بہکتے ہوئے قدم پڑنا، ڈگمگانا (ضعف یا مستی وغیرہ سے)۔
 لڑکھڑاتے ہیں قدم ان سے نظر ملتے ہی جانے ان شوخ نگاہوں سے جھلکتا کیا ہے      ( ١٩٨٨ء، مرج البحرین، ٣٢ )
٢ - ڈانوا ڈول ہونا، متزلزل ہونا۔
"ایک جدت پسند طبیعت اپنے انقلابی مزاج کو فن کا جامہ پہنانے کی کوشش میں کن کن مراحل سے گزری کہاں کہاں لڑکھڑاتی اور آخر کس طرح کامیاب ہوئی۔"      ( ١٩٦٩ء، نئی تنقید، ٢١٩ )
٣ - [ مجازا ]  نیت بگڑنا، ایمان میں فرق آنا، بہکنا۔
 زاہدوں کی توبہ ٹوٹی، لڑکھڑایا پاے شیخ کچھ عجب مستانہ رت ہے ساقیا برسات کی      ( ١٨٨٨ء، صنم خانۂ عشق، ٢٦٣ )
٤ - زبان سے رک رک کر الفاظ نکلنا، ہکلانا (زبان کے ساتھ مستعمل)۔
"اور باپ کی زبان بیٹے کے مستقبل کے خوف سے لڑکھڑا گئی۔"      ( ١٩٨٦ء، جوالا مکھ، ٤٤ )
فعل متعدی
١ - متزلزل کر دینا، اس طرح ہلانا یا جھنجھوڑنا کہ جگہ سے ہٹا دیا جائے۔
"جھوٹی جھوٹی باتوں سے (سند پکڑ کر) پیغمبروں سے جھگڑے تاکہ اپنی کٹ حجتی سے حق کو لڑکھڑا دیں۔"      ( ١٨٩٥ء، ترجمۂ قرآن مجید، نذیر احمد، ٧٤٨ )