سہرا

( سِہْرا )
{ سِہ (کسرہ س مجہول) + را }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت سے اردو میں ماخوذ ہے اور عربی رسم الخط میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : سِہْرے [سِہ (کسرہ س مجہول) + رے]
جمع   : سِہْرے [سِہ (کسرہ س مجہول) + رے]
جمع غیر ندائی   : سِہْروں [سِہ (کسرہ س مجہول) + روں (و مجہول)]
١ - موتیوں یا پھولوں کی لڑیاں، مقیش یا چاندی سونے کے تاروں کے ساتھ جو بیاہ کے وقت دُلھا دلہن کے سر پر باندھ کر مُنہ کی طرف چھوڑ دیتے ہیں جن سے چہرہ ڈھک جاتا ہے۔
"شہزادوں میں موتیوں کا طرہ اور سہرا، متوسط درجہ والوں میں پھولوں کا سہرا، پھولوں ہی کا طرہ۔"      ( ١٩٠٥ء، رسوم دہلی، سید احمد دہلوی، ٧٧ )
٢ - وہ نظم جو شادی بیاہ کے موقع پر شعرا، دولھا اور اس کے اغرہ کو خوش کرنے کے لیے لکھتے ہیں اور اس میں سہرے کی تعریف اور دولھا کے چہرے پر اس کی سجاوٹ کی شاعرانہ تمثیلیں اور تشبیہیں ہوتی ہیں۔
"سہرا یہ ایک طرح کی فرمائشی نظم ہوتی ہے۔"      ( ١٩٨٣ء، اصنافِ سخن اور شعری ہیئتیں، ١٩٧ )
٣ - (قبر یا تعزیہ پر چڑھانے کا) پھولوں کا ہار جو کسی چیز پر گولائی میں چپکا دیا جاتا ہے۔
"میں واپس آتے ہی بیاہ کر لوں گا ورنہ یہ سہرا میری قبر پر چڑھے گا۔"      ( ١٩٦٢ء، حکایاتِ پنجاب (ترجمہ)، ١١١:١ )
٤ - ایک طرح کی آتش بازی کہ جب اُسے چھوڑتے ہیں تو اُس میں سے پھول اس طرح جھڑتے ہیں کہ سہرے کی لڑیاں لٹکتی معلوم ہوتی ہیں۔
"سلسلہ ختم ہوتے ہی مہتابیوں، آفتابیوں، اناروں اور سہروں، جائی جائیوں ہت پھلوں اور چرخیوں کا مقابلہ شروع ہوا۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت اللہ بیگ، مضامین، ٤٦:٢ )
٥ - [ سنگ تراشی ]  مرغول جو پتھر کی پیشانی اور حاشیہ پر بطور سرگاہ بنی ہو، منبت کاری کی بیل۔ (اصلاحات پیشہ وراں، 69:1)۔
  • A chaplet
  • a garland
  • wreath