فعل لازم
١ - ہلکورے لینا، موج مارنا، ہلکورنا پانی کا نیز ہوا کے جھونکوں کا پے بہ پے آنا۔
"آپ ان شعراء کی عظیم و ضخیم شاعری، سمندر کی طرح لہراتی، جھومتی اور گونجتی ہوئی محسوس ہوگی۔"
( ١٩٨٤ء، سمندر، ٩ )
٢ - ہلنا، جنبش کرنا، لہلہانا۔
جب زراعت تمام ہیں پک جائے نئے سبزے کی طرح کب لہرائے
( ١٨٠٢ء، باغ و بہار، ١٩٧ )
٣ - سانپ یا زلف وغیرہ کا جنبش کرنا، سانپ کا چلنا، بل کھانا۔
پھن اٹھا کر آہ ! مستی میں وہ لہرانا ترا جیسے ہو جو بن کر متوالی کوئی ناز آفرین
( ١٩١٠ء، سرور جہاں آبادی، غمکدہ سرور، ٢٣ )
٤ - ہوا کی وجہ سے کسی ہلکی چیز کا اڑنا، ہلنا جلنا، پھڑ پھڑانا۔
جو ہواؤں میں ہے اور فضاؤں میں ہے اور دعاؤں میں ہے کوئی پھیلائے دامن کہ لہرائے آنچل اسے دیکھنا
( ١٩٨٣ء، بے آواز گلی کوچوں میں، ٩١ )
٥ - للچانا، مائل ہونا، راغب ہونا۔
مارسیہ زلف کو دیجے نہ بہت پیچ اپنا دل سودا زدہ لہرائے تو کیا ہو
( ١٨٩٢ء، مسرور کاکو روی (انتخاب)، دیوان، ١٤ )
٦ - اترانا، چیلنا، نازاں ہونا۔
"شادی کا مسئلہ درپیش ہوا، ناگپور کے کروڑپتی سیٹھ مکھن لال بہت لہرائے ہوئے تھے، ان کی لڑکی سے شادی ہوگئی۔"
( ١٩٣٦ء، پریم چند، پریم پچیسی، ٦٠:٢ )
٧ - بھڑکنا، دہکنا۔
ہو دور تو جگنو ہے قریب آئے تو خوشبو لہرائے تو شعلہ ہے چھنک جائے تو گھنگھرو
( ١٩٦٦ء، درد آشوب (کلیات احمد فراز)، ١٨٣ )
٨ - ترنگ میں آنا، جوش میں ہونا۔
"آواز سے پہچان گیا کہ وہ موچی صاحب لہرا رہے ہیں۔"
( ١٩٠١ء، الف لیلہ، سرشار، ١٠٠١ )
٩ - خم کھانا۔
"لکشمی بے حد حسین ہے، بدن کا رنگ سرخ ہے، لہراتی برق کی مانند ہر وقت جگمگاتی رہتی ہے۔"
( ١٩٩٠ء، بھولی بسری کہانیاں، بھارت، ١٩٠:٢ )
١٠ - جھومنا، رقص کرنا۔
لے میں زلفوں کی طرح جس وقت لہراتا ہے دل اک جنوں پرور جزیرہ میں پہنچ جاتا ہے دل
( ١٩٣٣ء، فکر و نشاط، ٨ )
١١ - چھا جانا، امڈنا، پھیل جانا (رنگ وغیرہ)۔
نگار وقت کے چہرے پر رنگ لہرائے جبین عزم و صداقت دمک اٹھی جس سے
( ١٩٧٥ء، ماجرا، ١٤٧ )
١٢ - آرزو مند ہونا، ذوق و شوق رکھنا، خواہش کرنا۔
لہراتا تھا کوثر بھی کہ یہ در ادھر آئے فرماتے تھے حیدر یہ بہادر ادھر آئے
( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٩٦:١ )
١٣ - مارگزیدہ کا زہر کے اثر سے اپنے اعضاء کو ہلانا۔
پڑا دریا جو اس زلف سپہ کا سایہ کاٹا کالے کا بھی دیکھا ہے نہ یوں لہرایا
( ١٧٨٠ء، سودا، کلیات، ٢١:١ )
١٤ - جھنڈے وغیرہ کو ہلانا، اڑانا۔
"زرد پرچم لہرانا آپ کا کام ہے ڈاکٹر گار ! یہ آپ کا ادارہ ہے۔"
( ١٩٩٠ء، پاگل خانہ، ٢٨١ )
١٥ - ترنگ میں لانا، سرشار کرنا۔
کبھی تو جوش محبت بھی دل کو لہرائے کبھی تو جھاگ کی مانند نہر میں بھی بہے
( ١٨٦١ء، کلیات اختر، ٩٠٤ )
١٦ - کسی امر یا کام پر مائل کرنا، راغب ہونا۔
برس کر تو نہ لہرا چشم طوفاں زا کو رونے پر نہ دے آنکھوں کو چھینٹے ابر گوہر بار جانے دے
( ١٨٣٢ء، دیوان رند، ٢١٧:١ )
١٧ - اعلان کرنا۔
"کہنے میں نہیں آتا جو ماں باپ پر ہوئی سب نے یہ بات لہرا دی، گرو جی نے. رانی کیتکی کو اپنے پاس بولا لیا ہو گا۔"
( ١٨٠٣ء، رانی کیتکی، ٣٤ )